خوشی کو اسلام میں تلاش کرو؛ اکنا کنونشن

on Thursday, May 30, 2013

امریکی ریاست کنکٹی کٹ کے ہارٹ فورڈ کنونشن سنٹر میں اسلامک سرکل آف نارتھ امریکہ(اکنا) اور مسلم امریکن سوسائٹی (ماس)کا سالانہ کنونشن ، امریکہ بھر سے ہزاروں مسلم امریکن کمیونٹی ارکان کی شرکت
اکنا ، امس کنونشن حسب روایت اس سال بھی ایسٹ کوسٹ پر مسلم امریکن کمیونٹی کا سب سے بڑا اجتماع بن گیا، غیر روایتی لیکن متاثر کن انداز میں ہزاروں شرکاءتک اسلامی تعلیمات کا پیغام پہنچایا گیا

نیویارک (محسن ظہیر سے ) امریکی ریاست لوزیانا سے تعلق رکھنے والامسلم امریکن شعیب خان ، امریکہ میں مسلم امریکن کمیونٹی کی اہم و نمائندہ تنظیم اسلامک سرکل آف نارتھ امریکہ (اکنا) اور مسلم امریکن سوسائٹی کے مہمانان خصوصی و مقررین میں سے ایک تھا کہ جنہوں نے ریاست کنکٹی کٹ کے شہر ہارڈ فوٹ میں منعقد ہونے والے اکنا اور ماس کے 38ویں سالانہ کنونشن سے خطاب کیا۔اس سال کنونشن کا موضوع ”اسلام ؛خوشی کا حصول “ رکھا گیا تھا اور اس موضوع کے حوالے سے خطاب کی بجائے 29سالہ شعیب خان جو کہ چند سال قبل موٹر سائیکل ایکسیڈنٹ کی وجہ سے دونوں ٹانگوں سے محروم ہو گیا تھا ، نے اپنی آب بیتی سناکر موضوع پر روشنی ڈالی

شعیب خان نے کنونشن کے اتوار کو ہونے والے مرکزی اجلاس جس میں ہزاروں کی تعداد میں امریکہ بھر سے آئے مسلم امریکن کمیونٹی کے ارکان نے شرکت کی ، کو مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ میرے پاس دونوں ٹانگیں نہیں ، چھ ہفتے تک کومے میں رہنے اور چھ ماہ تک لائف سپورٹ پر گذارنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے مجھے نئی زندگی دی ،میں نے معذوری کو اپنی کمزوری نہیں بننے دیا اور ہمت و حوصلہ سے کام لیتے ہوئے آج اپنی نارمل زندگی جی رہا ہوں ۔ شعیب خان نے ہزاروں کے مجمع سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ میں خوش ہوں ، اللہ تعالیٰ کا شکرگزار ہوں ۔آپ ایک نظر میری طرف اور پھر اپنی طرف دیکھیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ اللہ کی آپ پر کتنی رحمت اور کرم ہے اور اس سے بڑھ کر آپ کے لئے اطمینان اور خوشی کا باعث اور کیا بات ہو سکتی ہے ۔

شعیب خا ن اور اکنا کا تعلق اس وقت قائم ہوا کہ جب چند سال قبل اس کا لوزیانا سٹیٹ میں موٹر سائیکل پر ایکسیڈنٹ ہوا جس کے بعد اسے بیہوشی کی حالت میں مقامی ہسپتال منتقل کیا گیا جہاں وہ پہلے چھ ماہ کومے میں رہا بعد ازاں چھ ماہ تک لائف سپورٹ پر رہا۔ اسی ہسپتال میں اکنا سے وابستہ بعض ڈاکٹرز بھی اس کے معالجین میں شامل تھے ۔شعیب خان کی زندگی بچانے کے لئے اس کی دونوں ٹانگیں کاٹ دی گئیں ۔نئی زندگی ملنے کے بعد شعیب خان نے فیصلہ کیا کہ وہ بھرپور انداز میں اپنی زندگی جئے گا ، گاڑی چلائے گا۔ اکنا ریلیف کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر مقصود احمد کے مطابق اس حوالے سے لوزیانا سٹیٹ کی جانب سے پیشکش کی گئی کہ شعیب خان کے لئے سپیشل وین کی تیاری پر ایک لاکھ ڈالرز لاگت آئے گی اور اس کا آدھا خرچ سٹیٹ برداشت کرنے کے لئے تیار ہے۔ اکنا ریلیف کے مقامی ساتھیوں نے کمیونٹی کی مدد سے پچاس ہزار ڈالرز کے فنڈز اکٹھے کئے اور باقی ماندہ رقم سٹیٹ کی جانب سے مہیا کی گئی جس سے شیعب خان کے لئے خصوصی وین تیار کی گئی جس میں وہ اپنی وہیل چئیر سمیت بیٹھ جاتا ہے اور اب امریکہ بھر میں سفر کرتا ہے

مقصود احمد نے مزید بتایا کہ شعیب خان نے انفارمیشن ٹیکنالوجی میں ایڈمیشن لینے کے علاوہ وہیل چئیر ٹینس فیڈریشن بھی جوائن کی اور اب اس کا شمار وہیل چئیر ٹینس پلئیرز میں ہوتا ہے ۔اکنا آنیوالے دنوں میں شعیب خان کے ٹورنامنٹ کو بھی سپانسر کرے گی
شعیب خان نے جب کنونشن میں اپنی کہانی سنائی تو ہال میں موجود ہزاروں کمیونٹی ارکان نے نہ صرف اسے کھڑے ہوکر شاندار انداز میں خراج تحسین پیش کیا بلکہ اس کی زندگی کی کہانی کو متاثر کن قرار دیا ۔

اکنا کے کنونشن میں اس سال بھی حسب روایت امریکہ بھر سے اکنا کے ارکان کے علاوہ مسلم امریکن کمیونٹی کے اٹھار ہ ہزار سے زائد ارکان شریک ہوئے۔ ان ارکان کا تعلق مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تھا اور اکنا کنونشن میں بھی سیمینار اور ورکشاپس کے علاوہ مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی تقریباً ہر قسم کی سرگرمیوں کا اہتمام کیا گیا تھا جس میں اکنا بازار ،میرج بیورو، یوتھ سیمینار ز، بچوں کے لئے کھیلنے کودنے کے پروگرامزاور بین العقائد ڈائیلاگ شامل تھا

اکنا اور ماس جو کہ بنیادی طور پر ایک مذہبی تنظیم کے طور پر جانی جاتی ہیں لیکن امریکہ کی ایسٹ کوسٹ پر کنکٹی سٹیٹ میں ہونے والے اس کے کنونشن میں انٹرٹیمنٹ کے پروگرام کے علاوہ مزاحیہ مشاعرہ بھی قابل ذکر ہے ۔ اس حوالے سے جب اکنا کے مرکزی امیر نعیم بیگ سے پوچھا گیا کہ بظاہر اکنا جیسی مذہبی تنظیم کے پلیٹ فارم پر انٹر ٹینمنٹ اور مزاحیہ مشاعرہ جیسی سرگرمیوں کیا کچھ عجیب نہیں ؟تو انہوں نے کہا کہ تفریح طبع اور تفنن کے لئے بہت سے سرگرمیوں ہو سکتی ہیں جنہیں ہم حلال انٹر ٹیمنٹ بھی کہا جا سکتا ہے اور اہم ایسی سرگرمیوں کو اپنے کنونشن میں یقینی بناتے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ یہ تاثر درست نہیں کہ اسلام کوئی بالکل ہی خشک قسم کا مذہب ہے

اکنا کے کنونشن میںمسلم امریکن کمیونٹی کے معروف ریپر نیٹو ڈین نے دف کے ساتھ اپنے مخصوص انداز میں جب پرفارم کیا تو کنکٹی کٹ کنونشن سنٹر کے پانچ ہزار نشستوں کی گنجائش والے جام پیک ہال میں دائیں اور بائیں جانب الگ الگ اطراف پر بیٹھے ، مسلم کمیونٹی کے خواتین و حضرات نہ صرف خوب محظوظ ہوتے نظر آئے بلکہ انہوں نے دل کھول کر انٹرٹیمنٹ پیش کرنے والے ریپرز کو داد دی

اسی طرح کنونشن سنٹر کے ساتھ واقع میریٹ ہوٹل میں خصوصی محفل مشاعرہ کا بعد نماز عشاءاہتمام کیا گیا جس میں پاکستان سے خصوصی طور پر آئے مزاحیہ شاعرہ کے بے تاج بادشاہ شعراءانور مسعود اور خالد مسعود نے اپنے مخصوص انداز میں اپنا شاعرانہ کلام پیش کرکے مشاعرہ لوٹ لیا ۔اکنا ، ماس کنونشن میں اس سال ہونے والے اس مزاحیہ مشاعرہ میں سابقہ کنونشن کی نسبت سب سے زیادہ تعداد میں کمیونٹی ارکان جن میں اکنا کے سابق چار امیر سمیت اہم مذہبی سکالرز بھی شامل تھے، شریک ہوئے اور خالد مسعود اور انور مسعود کے مزاحیہ مشاعرہ پر ان کو لوٹ پوٹ ہو جانا ، قابل دید تھا۔پروفیسر امین اصلاحی سمیت بعض ارکان تو خالد مسعود کی شاعری سے پوری طرح محظوظ ہونے کے لئے اپنے ساتھ بیٹھے شرکاءسے خالد مسعود کی مخصوص انداز میں پنجابی اور اردو کی مکس شاعرہ کا ترجمہ پوچھتے رہے

اکنا کے مرکزی امیر نعیم بیگ کے مطابق اس سال ہونے والے کنونشن کی قابل ذکر بات یہ ہے کہ نہ صرف پہلے سے زیادہ تعداد میں مسلم امریکن کمیونٹی کے ارکان شریک ہوئے جن میں افریقین امریکن اور یوتھ کی تعداد سب سے زیادہ تھی ۔ اس سوال کہ امریکہ میں مقیم مسلم امریکن کمیونٹی جسے اسلاموفوبیا سمیت اہم چیلنجر درپیش ہیں، کے لئے اس کنونشن میں کیا پیغام ہے ؟تو انہوں نے کہا کہ ہمیں اسلاموفوبیا کا مقابلہ اسی انداز میں کرنا ہوگا کہ جیسے نبی کریم حضرت محمد مصطفیﷺ نے اپنے مکی اور مدنی دور میں کیا ،انہوںنے مخالفت اور حملوں کے باوجود دوسروں کی مدد کرکے ، ان کے دکھ درد میں شریک ہوئے اور اپنے عمل ، اخلاص ، کردار اور محبت سے لوگوں کے دل جیتے اور ہمیں بھی امریکہ سمیت دنیا بھر میں نبی کریم حضرت محمد مصطفیﷺ کے ماڈل کو ہی اپنا رول ماڈل بنانا ہے ۔

نعیم بیگ نے کہا کہ اس سال کنونشن کا پیغام اور موضوع بھی یہی ہے اور کنونشن میں شریک شعیب خان ، علامہ سراج وہاج امام زید شاکر، نعمان علی خان ، یاسر قاضی اور شیخ عمر سلیمان سمیت سکالرز و مقررین نے بھی یہی پیغام دیا ہے کہ حقیقی خوشی اندر سے اور سکون قلب سے ملے گی ۔قلب کو سکون اس وقت ملے گا کہ جب انسان قناعت اختیار کرلیتا ہے

اگر یہ کہا جائے کہ کنونشن میں موضوع ”خوشی کا حصول “ کے حوالے سے سب سے دلچسپ و موثر انداز میں روشنی ،جواں سال اسلامک سکالر نعمان علی خان نے ڈالی تو بے جا نہ ہوگا۔کنونشن سنٹر کے جام پیک ہال جس میں بڑی تعداد میں یوتھ کمیونٹی ارکان بھی موجود تھے ، سے اپنے خطاب سپائیڈر مین ، سپر مین ، ڈزنی لینڈ ، نیا گھر ، پرانا گھر، شادی بیاہ کے معاملات ، نئے کھلونے ، تحفے تحائف سمیت انسان کی زندگی میں سامنے آنیوالی خواہشات کے حوالے سے کرکے مجمع کو پوری طرح اپنی جانب متوجہ کیا اور زندگی کے چھوٹے موٹے معاملات کو پہلے از راہ تفنن کے طور پر بیان کیا اور پھر حاضرین کے سامنے سوال اٹھایا کہ گھر لینے کے بعد بڑا گھر لینے کی خواہش ،ایک گاڑی لینے کے بعد نئی اور بڑی گاڑی کا حصول ، ایک کے بعد دوسری اچھی جاب ، بچے کا ایک کے بعد دوسرا کھلونا لینے کا اصرار روز مرہ زندگی میں آنیوالے ایسے مراحل اور خواہشات ہیں کہ جب تک ان کی تکمیل نہیں ہو جاتی،ان کی بہت تمنا ہوتی ہے لیکن جب یہ خواہشیں پوری ہو جاتی ہے پھر نئی خواہشات کی تمنا ان پر غالب آجاتی ہے

نعمان علی خان نے پانچ ہزار سے زائد کے مجمع کے سامنے سوال رکھتے ہوئے کہا کہ خواہش جس کے سامنے دوسری خواہش کھڑی ہوجائے ، کی تکمیل سے زندگی میں خوشی میسر آتی ہے تو مجمع کا مجموعی جواب تھا کہ نہیں ۔انہوں نے کہا کہ جب بچے بڑے ہوتے ہیں تو ان کی ضروریات بڑھتی ہیں، جب وہ اور بڑے ہوتے ہیں تو کھلونے کی بجائے کھیلنا کودنا چاہتے ہیں ،پھر جب وہ اور بڑے ہوتے ہیں تو ان کا دل انٹرٹینمنٹ مانگتا ہے ، وہ ویڈیو گیمز اور پلے سٹیشن جیسی گیمز مانگتے ہیں ،پھر اپنی زندگی میں تزئین چاہتے ہیں اور پھر ان کا دل چاہتا ہے کہ وہ ان کے پاس جو کچھ ہے ، وہ دوسروں کو دکھائیں ، خود کو شوآف کریں ۔جب بھی زندگی کے مراحل تبدیل ہونگے ، ضرورت اور خوشی تبدیل ہو جائے گی لیکن حقیقت میں ہمیں اپنی زندگی میں ایسی خوشیوں کی بارش چاہئیے کہ جو ایک کسان اپنی فصل کے لئے مانگتا ہے۔ کسان بارش ضرور مانگتا ہے لیکن ایسی بارش کہ جو اس کی فصل کے لئے باران رحمت ہو ۔لہٰذا ہمیں اپنی زندگی میں ایسی خوشیاں حاصل کرنی ہیں کہ جو باعث قلب و اطمینان ہوں اور یہ خوشی اسلام کے مطابق قناعت سے زندگی بسر کرکے اور دوسروںکے کام آکر ہی مل سکتی ہے ۔

مسلم امریکن کمیونٹی کے عالمی شہرت یافتہ سکالرز امام سراج وہاج نے نعمان علی خان کے فلسفہ خوشی و سکون کے حصول کو شوبز اور گلیمر کی دنیا کے سپر سٹارز کی مثالین دیتے ہوئے کہا کہ ان سپر سٹارز کے پاس سب کچھ ہوتا ہے لیکن ایک لمحہ سکون کی تلاش میں مارے مار ے پھرتے ہیں ، ان کی زندگیوں کو اندر سے جھانک کر دیکھیں تو منتشر اور برباد نظر آئے گی ۔امام سراج وہاج نے کیلی فورنیا میں پاکستان کے عالمی شہرت یافتہ سابقہ پاپ سنگر جنید جمشید سے اپنی ملاقات کا احوال سناتے ہوئے کہا کہ جنید جمشید کے پاس زندگی کی ہر آسائش موجود تھی ، خواہشیں اس کے سامنے سرنگوں ہوتی تھیں لیکن وہ خوش نہیں تھا، اسے خوشی اور سکون اس وقت ملا کہ جب اس نے سچا راستہ اختیار کیا ۔انہوں نے کہا کہ انسان کی روح اگر اندر سے کھوکھلی ہو تو سکون اس کے قریب نہیں آتا۔ انہوں نے کنونشن میں شریک لوگوں سے مخاطب ہوکر کر کہا کہ خود تجربات کرنے سے بہتر ہے کہ دوسروں کی مثالوں سے سبق سیکھیں اور یہ اسباق ، اسلام ہمیں ہر قدم پر دیتا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ اسلام کے مطابق زندگی بسر سے جسم کے اندر روح زندگی پاتی ہے اور جب روح زندگی سے بھرپور ہو جائے تو قلب کو سکون ملتا ہے ۔انہوںنے کہا کہ ہمیں اس دنیا میں ایک رول ماڈل بن کر رہنا ہے ، اس لئے کہ دوسروں کے لئے مثال بنیں اور آخرت میں سرخرو ہوں ۔

امام سراج وہاج نے کنونشن میں شریک ہزاروں خواتین کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ انہوںنے حجاب کوئی زبردستی نہیں پہنا بلکہ اس لئے کہ ان کا خدا ان سے ایسا چاہتا ہے ، انہوں نے کہا کہ ماہ رمضان میں لوگ آپ کے سامنے کھانا کھا رہے ہوتے ہیں لیکن مسلمان کھانے کی طرف نظر اٹھا کر بھی نہیں دیکھتا ۔یہ تقویٰ اللہ کو بہت پسند ہے اور اس کا اجر وہی دے گا

اکنا کے امیر نعیم بیگ نے کہا کہ اس سال کنونشن کا پیغام بھی یہی ہے کہ ہمیں امریکہ میں اسلام کی تعلیمات کے مطابق زندگی بسر کرنی ہے اور دوسروں کے بلا امتیاز کام آنا ہے ۔ یہ نہ صرف ہماری کامیابی کا راز بنے گا بلکہ ہمیں حقیقی خوشی بھی دے گا جس کی ہمیں ہمیشہ تلاش رہتی ہے ۔
معروف جواں سال سکالر شیخ عمر سلیمان نے کہا کہ وہ لوگ زیادہ خطرناک ہوتے ہیں کہ جن کی زندگی میں کوئی مقصد نہ ہو، ان کے لئے اپنی ہی نہیں بلکہ دوسروں کی زندگی بھی بے معنی ہوتی ہے ۔اسی طرح جس انسان کی زندگی میں کوئی خوشی یا سکون نہیں ، وہ زندگی سے مایوس اور متنفر رہتا ہے ۔جب زندگی کو کوئی مقصد مل جائے تو خوشیاں خود قریب آتی ہیں ۔ ہمیں خیال رکھنا ہے کہ زندگی کا ایسا مقصد بنائیں کہ جس کی وجہ سے حقیقی سکون حاصل ہو ۔انہوں نے کہا کہ اسلام ہمیں خوشی اور جینے کا مقصد دیتا ہے

معروف سکالر یاسر قاضی نے کہا کہ مسلمان زندگی اچھی آخرت کے لئے گذارتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ سے وہ زندگی مانگیں کہ جو ہمار ے لئے بہتر ہو اور وہ موت مانگیں کہ جو بہتر ہو ۔ اللہ تعالیٰ سے دعا مانگیں کہ ایسا خوشی عطاءفرمانا کہ جو قلب کے سکون کا باعث بنے اور کبھی ختم نہ ہو۔مولانا یاسر قاضی نے کہا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ جن کے اعمال اچھے ہونگے ، ان کو جنت ملے گی اور جن کے اعمال زیادہ اچھے ہونگے ، انہیں جنت سے بھی بڑھ کر اجر ملے گا ۔جنت سے بڑھ کر اجر یہ ہے کہ زیادہ اچھے اعمال کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ روز محشر اپنا دیدار نصیب فرمائیں گے اور قران میں ارشاد ہے کہ جب بندہ اللہ تعالیٰ کا دیدار کرے گا تو اس کا چہرہ روشن ہو جائے گا ۔یہ نعمت اعمال سے ممکن ہے ۔ انسان کو دنیا میں نہیں بلکہ آخرت میں جنت ملے گی اور وہی مقام ہوگا کہ اگر اس کے اعمال اچھے ہوئے تو وہ اللہ تعالیٰ کی زیارت کی سعادت حاصل کرے گا۔نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ جو اللہ تعالیٰ سے ملنے کی خواہش رکھتا ہے ، اللہ تعالیٰ اس سے ملنے کی خواہش رکھتا ہے

مولانا یاسرقاضی نے کنونشن میں شریک ہزاروں مسلم امریکن کمیونٹی کے ارکان سے کہا کہ آئیے ہم اپنے آپ سے یہ سوال کریں کہ کیا ہم اللہ تعالیٰ سے ملنے کی خواہش رکھتے ہیں ؟اگر جواب ہاں میں ہے ،تو ایسا اسی وقت ممکن ہوگا کہ جب ہم اچھے اعمال کریں گے ۔
کنکٹی کٹ میں اکنا کا کنونشن تین روز تک جاری رہنے کے بعد اختتام پذیر ہو گیا اور کنونشن میں شریک بڑی تعداد میں کمیونٹی ارکان اور والدین کا کہنا تھا کہ وہ نہ صرف خود اگلے سال بلکہ اپنے عزیز و اقارب کو بھی
ساتھ لائیں گے اور انہوںنے کہا کہ جب تک ہم کنونشن میں نہیں آئے تھے ، ہمیں اندازہ نہیں تھا کہ اس کنونشن کا ہمارے لئے کیا مطلب ہے

اکنا کے امیر نعیم بیگ نے اس سوال کی کیا کنکٹی کٹ کے کنونشن سنٹر کی چار دیواری سے باہر بھی اس سال کے کنونشن کا پیغام جائے گا تو انہوں نے کہا کہ کنونشن میں ہماری کوششوں سے متاثر ہونے والا ہر شخص ہمارا پیغام بن کر کنونشن سنٹر کی چار دیواری سے باہر جائے گا اور یوں ہر سال ہمارا پیغام نارتھ امریکہ بھر میں پھیل رہا ہے ۔انہوں نے کہا کہ نارتھ امریکہ میں بسنے والے مسلمانوں کو اسلامی تعلیمات پر عمل کرکے حقیقی خوشی حاصل کرنی ہے اور معاشرے کا حصہ بن کر اپنے حصے کا کام سب سے اچھا کرنا ہے اور بلاامتیاز دوسروں کے کام آنے کو اپنی زندگی کا مقصد بنانا ہے ۔

نمازوں کے دوران امت مسلمہ کی واضح تصویر نظر آتی تھی ، ہم نے حج اور عمرہ کے بعد اس جیسا منظر پہلی بار دیکھا ہئے کہ جہاں مختلف رنگ و نسل اور ممالک سے تعلق رکھنے والے مسلمان ایک جگہ پر جمع ہو




View the Original article

0 comments: