لندن اولیمپکس کا گرما گرم آغاز ہو چکا ہے ۔ اور لندن اولیمپکس میں مختلف مسلمان ممالک سے بہت سارے مسلمان خواتین و حضرات نے اس میں بھرپور شرکت کی ہے ۔ لیکن اس میں سب سے زیادہ اہم وہ بات ہے کہ جس کو بڑی اہمیت کا نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے ۔ اور وہ ہے مسلمان خواتین کا پاپردہ ہونا اور اس ہی صورت میں اولیمپکس کے فرائض سر انجام دینا ۔
لندن اولیمپکس ماسکو گیمز ۱۹۸۰ کے بعد پہلی دفعہ رمضان کے بابرکت مہینہ میں رکھا گیا ہے کہ جس میں مسلمان رمضان کے روزے اور مختلف فرائض کی سرانجام دہی میں مصروف ہوتے ہیں لیکن دنیا کے ساتھ چلنے اور اپنے ملک کی نمائیندگی کرنا بھی اپنا فرض عین سمجھتے ہیں ۔اس اولیمپک میں اس دفعہ مسلمان کھلاڑیوں کی تعداد ۳۰۰۰کے لگ بھگ ہیں اور بات یہاں ہی ختم نہیں ہو تی بلکہ برطانیہ کے قانون کے مطابق ہر گیم میں ۲ مسلمان کھلاڑی برطانیہ کی نمائندگی کریں گے۔
اور یہ بات بھی میڈیا کی زینت بنی ہوئی ہے کہ پہلی دفعہ سعودی عرب نے بھی ۲ خواتین کھلاڑیوں کو لندن اولیمپکس میں شرکت کی اجازت دی ہے اس کے علاوہ برونائی اور قطر نے بھی خواتین کھلاڑیوں کو لندن اولیمپکس میں شرکت کی اجازت دی ہے ۔ اس کے علاوہ ایران اور متحدہ عرب امارات نے بھی خواتین کو ویٹ لفٹنک ، ٹیبل ٹینس میں شرکت کے لیے بھیجا ہے ۔
لیکن یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ مسلمان خواتین و حضرات کے ہر عمل کو اتنی باریک بینی سے کیوں دیکھا جا رہا ہے کہ اگر مسلمان عورت با پردہ آجائے تو اس کو بہت سی مشکلات کا سامنا کیوں کرنا پڑتا ہے ۔ اور ہر جگہ پر اس کو مختلف پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اس کی سب سے بڑی وجہ آج کے مسلمان کا ایک دوسرے مسلمان کے ساتھ ناروا سلوک اور اسلام سے دوری ہے ۔ کیونکہ مسلمان اس دور میں ایک دوسرے سے کٹ کے رہ گئے ہیں ان کو دوسرے مسلمان کے دکھ درد کا کوئی احساس نہیں ہے ۔ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ غیر مسلم طاقتیں مسلم ممالک کو کس طرح برباد کرنے میں دن رات لگی ہوئی ہیں ۔ اور اس صورت حال میں بھی مسلمان ممالک کسی بھی قسم کا کوئی کام نہیں کر رہے کہ مسلمان ممالک کو کیسے یکجا کیا جائے اور پوری دنیا میں اپنا مقام بنایا جا سکے ۔ یہ ایک دور حاضر کا لمحہ فکریہ ہے کہ باطل قوتیں مسلمانوں پر قابض ہیں جنہیں وہ جیسے چاہیں استعمال کریں ۔
لندن اولیمپکس میں بظاہر تو یوں ہی لگتا ہے کہ سب کو مساوی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے پر درحقیقت ایسا نہیں ہے کیونکہ مسلمان کھلاڑیوں کو ہر وقت مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو کہ تب ہی کم کیا جاسکتا ہے جب مسلمان ممالک باطل قوتوں کے خلاف یکجا نہ ہو جائیں ۔
View the Original article
0 comments:
Post a Comment