روزہ‘‘ ۔ تقویٰ و پرہیزگاری کی جانب پہلا قدم’’

on Sunday, August 5, 2012

روزہ‘‘ ۔ تقویٰ و پرہیزگاری کی جانب پہلا قدم’’

روزہ‘‘ ۔ تقویٰ و پرہیزگاری کی جانب پہلا قدم’’

انسان کی اس دنیا میں گزاری جانے والی زندگی نیک اور بد اعمال کا مجموعہ ہے،   بحیثیت مسلمان ہم اپنے نیک اعمال پر خوشی محسوس  کرتے ہیں  اور اللہ سے رحمت  کی امید رکھتے ہیں اور اپنے بد اعمال اور کوتاہیوں پر اللہ سے معافی کے خواستگار بھی ہوتے ہیں۔ہر مذہب کےماننے والے  اپنے اپنے  عبادت کے طریقہ کار پر چلتے ہوئے    اپنے  اپنے خداؤں سے  گناہوں کی معافی طلب کرتے ہیں لیکن ہمارا اللہ کتنا مہربان  اور رحیم ہے  کہ اس نے  مسلمانوں کو دین اسلام کی بیش بہا نعمتیں سمیٹنے اور  اپنے اعمال کی بخشش   کروانے کے لئے ایک پورا مہینہ  یعنی کہ  ‘‘ماہِ صیام’’ عطا کردیا۔ ‘‘ماہِ  رمضان’’  اللہ کی جانب سے مسلمانوں  کے لئے ایک ایسا تحفہ ہے جس میں  روزہ رکھنے والوں کو ہر نیکی کا  اجر دگنا ہو کر ملتا ہے اور ہر عبادت کا ثواب ستر گنا بڑھا دیا جاتا ہے۔

اللہ تبارک تعالیٰ سورۃ البقرہ میں ارشاد فرماتا ہے

۔’’اے ایمان والوں تم پر روزے فرض کیئے گئے جیسے کے تم سے پہلے کے لوگوں پر فرض کیئے گئے تاکہ تم متقی اور پرہیزگار بن جاؤ‘‘۔

اس آیاتِ مبارکہ میں ربِ غفور ہمیں  بتا رہا ہے کہ روزے کی فرضیت ہمیں تقویٰ کی راہ پر لانے کے لئے اور پرہیزگار بنانے کے لئے کی گئی ہے۔  دیگر ارکانِ اسلام جیسے کہ نماز، زکوۃ ، حج  اور حسن و اخلاق کے ذریعے بھی تقویٰ حاصل کیا جاتا ہے لیکن  روزے کو تقویٰ حاصل کرنے کے لئے اہم اس لئے قرار دیا گیا ہے  کیوں کہ روزہ بنیادی طور پر اپنے نفس کو قابو میں کرنے کا نام ہے اور  انسان جب تک اپنے نفسانی خواہشات سے پرہیز نہیں کرتا تب تک تقویٰ اختیار نہیں کر سکتا ۔ اسی لئے جب ایک روزے دار اپنی بھوک پیاس  اور دوسری ضروریات  پر اللہ کی عبادت کے  پیشِ نظر قابو پاتا ہے  اور خود کو بے حیائی اور برے کاموں سے روکتا ہے   تو وہ آسانی سے تقویٰ  کی راہ اختیار کر لیتا ہے۔

انسانی نفس فتنہ اور شر کی جڑ ہے، انسان کی ساری برائی،   خواہشات  اور بدکاری اپنے نفس سے ہی شروع ہوتی ہے ۔ سورۃ یوسف میں  ارشاد ہوتا ہے کہ

‘‘بے شک نفس تو برائی کا بے حد حکم دینے والا ہے’’

اسی لئے نفس کو بے لگام گھوڑے سے تشبیہ دی گئی ہے  جس کو لگام دینا نہایت ہی مشکل امر ہے۔ نفس پر قابو پانے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ  انسان زندگی کے کچھ امور میں  اپنی جائز اور حلال خواہشات پر بھی قابو کرلے ، اس طرح ہمیں یہ احساس ہوگا کہ جب ہم حلال خواہشوں کو روک سکتے ہیں تو حرام سے تو ہر حال میں پرہیز کرنا چاہیئے کیوں کہ یہ تو وہ اعمال ہیں جن کی اللہ نے بھی ممانعت فرمائی ہے۔ ایک روزے دار جب اپنے رب کی بارگاہ میں روزے  دار کی حیثیت سے حاضر ہوتا ہے تو نفس کا گھوڑا بھی اس کا کچھ نہیں بگاڑ  پاتا اور وہ  اپنی عبادت، پرہیزگاری اور تقویٰ کی بنیاد پر  جب اللہ سے بخشش  طلب کرتا ہے تو اللہ اپنی  رحمانی صفت کے باعث اس کی دعاؤں کو اپنی بارگاہ میں قبول کرتا ہے اور اسے بخش دیتا ہے۔


Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...

About the author



View the Original article

0 comments: