مثالی اسلامی اکیڈمی: تصور اور بنیادی تقاضے

on Friday, May 25, 2012

قوموں کی ترقی میں افراد کی اہمیت بجا لیکن اداروں کی اہمیت اور ان کا کردار اولین اہمیت کا حامل ہوا کرتا ہے۔ اداروں کی اہمیت اس لیے بھی مسلم ہے کہ افراد چاہے کتنے ہی عبقری کیوں نہ ہوں بالآخر انہیں اپنی حیات مستعار گزار کر دار فانی سے کوچ کر جانا ہے۔ لیکن ادارے کبھی نہیں مرتے، ادارے زوال پذیر ہو جاتے ہیں، لیکن یہ امید ہمیشہ باقی رہتی ہے کہ کوئی بھی صاحب استطاعت کسی بھی وقت انہیں دوبارہ ترقی دلا سکتا ہے اور ان کے تن نیم مردہ میں روح حیات پھونک سکتا ہے ۔ اداروں کی اہمیت کی دوسری وجہ یہ ہے کہ ادارے انسان سازی کا کام کرتے ہیں۔ ایک فرد کی اہمیت اس کی اپنی ذات تک ہوتی ہے لیکن ادارہ ایک ہی وقت میں کئی افراد تیار کرتا ہے۔
اسلام نے جہاں افراد سازی کی تعلیمات دی وہیں اداروں کے قیام کا اہتمام بھی روز اول سے ہی کیا۔ اس بات کا درست اندازہ اسلام کے نظام عبادت سے لگایا جا سکتا ہے۔ فرض عبادتوں کا سارا نظام اجتماعی رکھا گیا، سوائے روزے کے کیوں کہ اس میں ایک پہلو انفرادیت کا بھی ہے۔ عبادت کے اس اجتماعی نظام سے مقصود مسلمانوں میں وہ نظم و ضبط پیدا کرنا ہے جس سے اداروں کے انتظام و انصرام میں مدد ملے۔ یہی وجہ ہے کہ عہد رسالت مآب صلی اللہ علیہ و سلم ، عہد خلفائے راشدین رضوان اللہ علیہم اجمعین اور اس کے بعد کے ادوار میں جب مسلمانوں نے مختلف اداروں کی تشکیل کی تو نظم و ضبط کی بہترین مثالیں پیش کیں۔
اسلام میں تعلیم کی اہمیت و ضرورت کے پیش نظر تعلیمی اداروں کی تشکیل کا اہتمام بھی کیا گیا۔ لیکن یہ نظام ایک طویل عرصہ تک غیر سرکاری بنیادوں پر قائم رہا۔ اس کا انتظام و انصرام اہل علم اور اہل خیر کی کاوشوں سے ہوتا رہا۔ اور جب تک تعلیم سرکار کے اثرات سے دور رہی تب تک اس کے ثمرات بہترین رہے اور اس تعلیمی عمل کے ذریعے پیدا ہونے والے افراد تاریخ اسلامی میں نمایاں رہے۔ تاریخ اسلامی میں چند ہی ایسے مدارس کا نام ملتا ہےجو حکومتوں کے قائم کردہ ہوں یا ان کے زیر انتظام ہوں۔ بر صغیر میں قائم مسلمان حکومتوں نے اس حوالے سے کچھ پیش رفت کی تھی لیکن اس کے خاطر خواہ نتائج تاریخ کا حصہ نہیں بن سکے۔
اسلامی اکیڈمی یا تعلیمی ادارے کی علمی، فکری اور تربیتی خصوصیات کے حوالے سے تو کوئی دو آراء نہیں ہو سکتیں۔ لیکن اس کی انتظامی اور اداراتی خصوصیات بھی مثالی ہونی چاہییں۔ اس مقصد کے حصول کے لیے اکیڈمی کے عناصر ترکیبی سے جو تقاضے وابستہ ہو سکتے ہیں وہ درج ذیل ہیں۔
انتظامیہ: ادارے کی انتظامیہ نہ صرف اخلاق حسنہ سے مزین اور دولت اخلاص سے مالا مال ہو بلکہ پیشہ ورانہ صلاحیت سے بھی مسلح ہو۔ کیوں کہ انتظام اور اخلاص دو الگ چیزیں ہیں۔
اساتذہ: تعلیمی ادارے کی ترقی اور بہتری میں سب سے اہم کردار استاد کا ہوا کرتا ہے کیوں کہ استاد کا مقام کلیدی ہے۔استاد کو چاہے کہ ادارے کو اپنے گھر کی طرح اور طلبہ کو بچوں کی طرح سمجھے۔
طلبہ: تعلیمی ادارے بنتے ہی طلبہ کے لیے ہیں، اگر ان کو نفی کر دیا جائے تو ادارہ تعلیمی نہیں رہتا۔ طلبہ کے لیے بہترین علمی ماحول، ان کی جسمانی صحت کے لیے میدان اور پارک کا اہتمام، ان کی ذہنی صلاحیتوں کے لیے ہم نصابی سرگرمیاں اور ان کے علم میں تنوع لانے کے لیے لائبری کا قیام ناگزیر ہے۔
مثالی اسلامی اکیڈمی کے بہتر نتائج حاصل کرنے کے لیے تعلیمی اور انتظامی منصوبہ بندی جس قدر حکمت عملی سے کی جائے گی اتنے ہی بہتر ، مؤثر اور دور رس نتائج برآمد ہوں گے۔



View the Original article

0 comments: