عربی تہذیب کی اثر پذیری و اثر اندازی

on Tuesday, May 22, 2012

عربی تہذیب ایک زندہ تہذیب ہے جس کا ایک اہم پہلو اثر پذیری اور اثر انداز ی ہے۔ یہ نہ صرف دیگر تہذیبوں کے محاسن کو اپنے اندر سمونے کا ملکہ رکھتی ہے بلکہ اس میں ایسی قوت بھی رکھی گئی ہے کہ یہ دوسروں پر اثر انداز بھی ہوتی ہے۔ موجود دور کی ترقی یافتہ تہذیب کی عہد تاریک سے عصر تنویر میں منتقلی کے پیچھے اسلامی تہذیب کا کردار سب سے اہم رہا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اسلام سے قبل روم اور یونان کی تہذیبیں دنیا میں سب سے زیادہ ترقی پسند تھیں لیکن اسلام کی آمد تک ان کا زوال شروع ہو چکا تھا۔ علم و حکمت کا جو خزانہ ان کے پاس موجود تھا وہ متروک ہو چکا تھا۔ جس صدی میں اسلام کا آغاز ہوا اس وقت پورا کا پورا یورپ تاریکی میں ڈوبا ہوتا تھا۔ اسلام کے سوا دیگر تمام ہی تہذیبیں اور قومیں علمی میدان میں مسلمانوں کی دست نگر تھیں۔ مسلمانوں نے اپنی تہذیب کو مزید مضبوط کرنے اور حکمت کے بکھرے ہوے موتیوں کو سمیٹنے کے لیے دیگر زبانوں میں موجود قدیم کتب کے تراجم کا اہتمام کیا۔ خاص طور پر فلسفے اور منطق کی کتب کے ذخیرے کو منتقل کرکے انسانی تہذیب و تمدن کے تسلسل کو برقرار رکھا۔ نیز صرف ترجمے پر ہی انحصار نہیں کر لیا بلکہ اس کو اسلامی نظریے سے ہم آہنگ کر کے وقت کے تقاضوں کے مطابق اسے ڈھالا۔ یہی وجہ ہے کہ اسلامی درسگاہیں اور علماء تمام اقوام عالم کی توجہ کا مرکز بن گئے۔
مسلم تہذیب کے اہم مراکز اندلس، صقلیہ اور ایطالیا یعنی اٹلی تھے جہاں کی درسگاہوں میں دیگر اقوام بطور خاص یہود ی اور عیسائی کثرت سے آتے تھے۔ وہیں ایسے مراکز بھی قائم کیے گئے تھے جہاں مختلف علوم کے تراجم عربی سے دیگر زبانوں میں کیے جاتے تھے۔ تراجم کے ان مراکز میں صرف ابن سینا، فارابی اور ابن رشد کی کتب ہی لاطینی زبان میں منتقل نہیں کی جاتی تھیں بلکہ خود یونانیوں کی وہ قدیم کتب جن کا ترجمہ مسلمانوں نے عربی میں کیا تھا ان کے بھی تراجم کیے جاتے تھے۔
اسلامی تہذیب کے دیگر تہذیبوں پر اثرات مرتب کرنے میں علمی مراکز اور تراجم کے علاوہ ایک اہم کردار مسلمان تاجروں کا بھی ہے۔ یہ تاجر اپنے ساتھ مادی اسباب کے علاوہ اسلامی تہذیب کا قیمتی خزانہ بھی لے کرجاتے تھے ۔ ان تاجروں نے نہ صرف یہ کہ اسلامی تہذیب سے لوگوں کو روشناس کروایا بلکہ دین کی دعوت بھی دنیا کے مختلف کونوں میں پھیلا دی۔
جنگ اگرچہ فی نفسہ کوئی مطلوب اور محمود چیز نہیں لیکن جب ناگزیر ہو جائے تو پھر ڈٹ جانے کا درس ہے۔ ان جنگوں کی صورتوں میں جو مثبت فوائد حاصل ہوئے ان میں سے ایک اسلامی تہذیب کی منتقلی بھی ہے۔
اسلامی تہذیب اور ثقافت میں اتنا اثر تھا کہ جس نے بھی اسے اپنایا ترقی کے زینے طے کرتا چلا گیا۔ جب تک مسلمان اس پر کاربند رہے دنیا پر حکمرانی کرتے رہے، جب یورپ نے اسلامی تہذیب سے اپنے مطلب کی قدریں مستعار لیں اور ان پر عمل شروع کیا تو تاریکی سے روشنی کی طرف ایسا سفر شروع کیا کہ آج تک دنیا پر کسی نہ کسی انداز سے تسلط جمائے بیٹھے ہیں۔



View the Original article

0 comments: