کسی بھی نظام کا منظم اور باقاعدہ آغاز روز اول سے کسی طے شدہ منصوبے سے نہیں ہوتا بلکہ اس کے تشکیل پانے اور پنپنے کا عمل آہستہ آہستہ چلتا رہتا ہے تا آنکہ وہ کسی ایسے مقام پر پہنچ جائے جہاں ایک منظم کل کی صورت میں اس کا متشکل ہونا ممکن ہو جائے۔ جو بھی نظام اس فطری طریقے اور رفتار سے تشکیل پاتا ہے وہ دیر پا ہوتا ہے اور جو بغیر کسی تجرباتی شہادت کے صرف سوچ کی بنیاد پرتشکیل دیا جاتا ہے اس کی عمر عموما کم ہوتی ہے۔
اسلام میں تعلیم اور تعلم کا آغاز روز اول یعنی کہ پہلی وحی سے ہی ہو گیا تھا لیکن باقاعدہ ایک مربوط نظام تشکیل پانے میں وقت لگا۔ لیکن اس نظام کے خد و خال اسلام کے پہلے مدرسے کے آغاز کے وقت ہی نمایاں ہو گئے تھے اور پھر اسی روایت کی پیروی کرتے ہوئے مسلمانوں نے سلسلہ تعلیم کو جاری رکھا۔
اسلام کی پہلی درسگاہ تو اگرچہ دار ارقم تھی لیکن ایک اسلامی ریاست میں جو باقاعدہ مدرسہ قائم ہوا وہ صفہ کا مدرسہ تھا، جسے کے معلم نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم تھے اور متعلم صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین۔ اس مدرسے کے نظام سے ہی اسلامی تعلیمی نظام کی بنیادیں اخذ کی گئیں جن کے اہم پہلو یہ ہیں کہ ؛
اسلامی نظام تعلیم میں مسجد کو مرکزی اور بنیادی اہمیت حاصل ہو گی۔ اور یہ اہمیت پوری اسلامی تاریخ میں مسجد کو حاصل رہی تا آنکہ جب مسلمانوں کی فتوحات بہت پھیل گئیں اور علوم میں تنوع آ گیا جس کے پیش نظر علیحدہ سے درسگاہیں قائم کرنا پڑیں۔ ورنہ بہت طویل عرصے تک مسجد ہی تعلیم و تعلم کا مرکز و محور ہوا کرتی تھی۔
دوسرا اہم پہلو یہ ہے کہ اسلام میں تعلیم مفت ہے۔ کیوں کہ اصحاب صفہ اور اس کے بعد کئی صدیوں تک تعلیم بالکل مفت دی جاتی تھی ۔
تیسرا اہم پہلو یہ ہے کہ اہل علم کی کفالت کرنا حکومت اور مخیر حضرات کی ذمہ داری ہے۔ تمام ہی اسلامی حکومتیں اس کا اہتمام کرتی آئی ہیں نیز ہر دور کے مخیر حضرات نے اہل علم کی کفالت کا ذمہ بھی لیا اور یہ آج تک جاری ہے۔ بیشتر دینی مدارس کے اخراجات اہل خیر کے تعاون سے ہی پورے ہوتے ہیں۔
اسلامی نظام تعلیم کا اصل مقصد کار آمد افراد کی تیاری ہے جو نہ صرف دینی اور روحانی طور پر مضبوط ہوں بلکہ دیگر حرفتوں اور عملی مہارتوں سے بھی بہرمندہ ہوں تا کہ معاشی ضروریات کو پورا کرنے میں کسی کے محتاج نہ ہوں۔ بالفاظ دیگر یہ نظام وقت کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہے۔ اسی کے پیش نظر اسلامی ممالک میں رائج نظام میں وہ تمام علوم شامل ہوا کرتے تھے جو وقت کی ضرورت ہوں۔ اسی نظام سے نکل کر فارابی ، ابن خلدون اور البیرونی جیسے افراد پیدا ہوئے جنہوں نے مختلف ادوار میں بالکل ہی مختلف میدانوں میں اپنا لوہا منوایا۔
اسلامی نظام تعلیم کا یہ مختصر سا جائزہ ہے جو اس نظام کی جامعیت کو سمجھنے میں کسی حد تک ممد و معاون ہو سکتا ہے۔
View the Original article
0 comments:
Post a Comment